مُہاجر یومِ ثقافت کیوں ؟ 

مُہاجر یومِ ثقافت کیوں ؟ 

ثقافت ایک تصور ہے جو انسانی معاشروں میں پائی جانے والی سماجی رویوں، اداروں اور اصولوں کے ساتھ ساتھ ان گروہوں میں موجود افراد کے علم، عقائد، فنون، قوانین، رسم و رواج، صلاحیتوں، رویے اور عادات کو شامل کرتا ہے۔ ثقافت اکثر کسی خاص علاقے یا مقام سے منسوب یا ماخوذ ہوتی ہے۔ ایک علاقہ کے لوگ جب اکّا دُکا کسی دوسرے علاقہ میں نقل مکانی کرتے ہیں تو دو نہیں تین نسلوں میں وہ اپنی ثقافت عموماً ترک کرکے نئے علاقہ کی زبان و قوم و ثقافت کو اپنا لیتے ہیں۔ یہ عمل ہم نے کئی بار کئی مقامات پہ رو بہ عمل دیکھا ہے۔ اس کی سیدھی سے مثال پاکستان ہے جہاں صوبہ سندھ میں گو کہ ثقافت کا بہت زور ہے مگر اکثر افراد ایران، و سینٹرل ایشیا سے آئے تھے مگر دو تین نسلوں میں سندھ میں ضم ہوگئے۔ یہی عمل جب ایک بڑا گروہ کرے تو  تین نہیں بلکہ کئی نسلوں تک نا صرف یہ کہ نقل مکانی کرنے والے اپنی ثقافت کو قائم رکھتے ہیں بلکہ انکی ثقافت مقامی ثقافتوں پہ اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ اسکی مثال سندھ  ہی میں بلوچ   ہیں جو نا صرف یہ کہ سندھ کے کلچر میں کبھی ضم نا ہوئے بلکہ سندھ انکے کلچر سے از خود اتنا متاثر ہوا کہ بیشتر سندھی بلوچ روایات کو ہی سندھی روایات گردانتے ہوئے انہیں بلوچ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں جس کی واضح مثال بلوچ یا افغان ٹوپی ہے جسے بیشتر سندھی بڑی شان و آن سے سندھی ثقافت کا سب سے اہم جُز سمجھ کر پہنتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ مخصوص ٹوپی ہر گز ہر گز بلوچوں کی سندھ میں آمد سے قبل اس علاقہ کی ثقافت کا حصّہ نا تھی۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں اٹلی و آئرلینڈ و میکسیکو کے افراد بھاری تعداد میں آئے گروہ در گروہ آئے۔ نتجیہ کیا ہوا؟ اٹلی کی مافیا آج تک امریکہ کے بڑے شہروں میں موجود ہے۔ اٹلی کا کھانا زبان و رہن سہن کا امریکہ پہ واضح اثر ہے۔ ایسے ہی آئیرش میکسیکن  کلچر نے بھی امریکہ کو شدید متاثر کیا۔ اسی طرح پاکستانی انڈین چینی عرب سب اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے محلہ و آبادیاں بسائے اپنے اپنے کلچر کے پاسدار ہیں۔ چونکہ امریکہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے، نظام درس و تدریس ایسا ہے کہ کوئی خیال زور و ذبردستی سے ٹھوسا نہیں جاسکتا تو کہیں کوئی ان تمام قومیتوں کو ”دل سے امریکی“ بننے تک کوٹہ سسٹم، جعلی مردم شماری جیسے صعوبتوں سے نہیں گزارتا۔گوکہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے مگر ان چھوٹی چھوٹی قومیتوں کی زبانوں کا بھی بھرپور احترام کیا جاتا ہے اور تمام تر زور diversity  پہ ہوتا ہے       

 مُہاجر کلچر نہائت منفرد ہے۔ مُہاجر کلچر کی مثال انسانی تاریخ میں ملنا نا ممکن ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں یہ واحد قوم ہے جو تبادلہ زمین و آبادی کے تحت وجود میں آئی۔ پاکستان بننے والے علاقہ کے  ۹۰ فیصد غیر مسلم پاکستان چھوڑ کر انڈیا چلے گئے اور انڈیا سے ۱۵ فیصد کے قریب مسلم پاکستان آگئے۔  ان میں سے جو پنجابی تھے اور پنجاب میں بسے ایک ہی کلچر و زبان ہونے کے باعث گھل مل گئے مگر جو  لاکھوں اردو، گُجراتی، ہریانوی، رانگڑی و پنجابی زبان بولنے والے صوبہ سندھ آئے وہ تعداد اتنی بھاری تھی کہ نا صرف یہ کہ وہ سندھ کی ثقافت میں ضم نا ہوسکے اور نا ہی یہ فطری طور پہ ممکن تھا بلکہ وہ سندھ میں انکی آمد سے بڑھتے ظُلم و زیادتی کے باعث ایک مکمل قومیت کی شکل اختیار کرگئے۔  

ثقافت قدیم رومی مفکر  سسرو کی تحریر پر مبنی جدید اصطلاح  ہے، جہاں اس نے روح کی پرورش کا ذکر کیا اور روح کی ترقی کو ایک تکمیلی مقصد کے طور پر سمجھا گیا، جو انسانی ترقی کے لیے سب سے اعلیٰ ممکنہ معیار تھا۔ سیموئل پوفنڈورف نے اس استعارے کو ایک جدید سیاق و سباق میں اپنایا، جس کا مطلب کچھ حد تک وہی تھا، لیکن اب یہ فرض نہیں کیا جاتا تھا کہ فلسفہ انسان کی فطری کمالیت ہے۔ ان کا استعمال، اور ان کے بعد کئی مصنفین نے کلچر کا  استعمال، “ان تمام طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا ہے جن کے ذریعے انسان اپنی ابتدائی بربریت پر قابو پاتے ہیں، اور فنون کے ذریعے مکمل طور پر انسانی بن جاتے ہیں۔

  ثقافت داخلی طور پر تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرنے والی قوتوں اور تبدیلی کی مخالفت کرنے والی قوتوں 

سے متاثر ہوتی ہیں۔ ثقافتیں خارجی طور پر معاشروں کے درمیان رابطے کے ذریعے متاثر ہوتی ہے۔ ہزاروں سال میں انسان کے غار سے نکل کر شکار اور شکار سے مشترکہ رہن سہن اور پھر قبیلوں اور شہروں کی زندگی کا سفر طے کیا ہے۔

۱۹۸۶ میں امریکی فسلفی ایدورڈ کیسی نے ثقافتی ہونے کا مطلب یہ دیا  کہ کسی رسم و رواج  کو اس قدر گہرائی سے بسایا جائے کہ اسے سنوارا جا سکے—اس کی ذمہ داری لینا، اس پر ردعمل ظاہر کرنا، اور اس کا محبت اور توجہ سے خیال رکھنا۔

یہ مُہاجر قوم پہ منحصر ہے کہ وہ اپنی ثقافت میں مزید چار چاند لگاتے ہیں یا دقیانوسیت میں ہی وقید رہتے ہیں۔ رسم و رواج جو ترقی و فلاح کے خلاف ہیں انکا جلد ترک کیا جانا قوم کے حق میں ہے۔

پان ہماری ثقافت کا جُز رہا ہے مگر جگہ جگہ پان کی پیک تھوکنا جہالت و پسماندگی ہے۔ پان کھائے مگر تمباکہ چبانا مضر صحت ہے۔ اس فرق کو سمجھیں۔ ثقافتی و علامتی طور پہ پان کھانا ماضی کی تہذیب کو زندہ رکھنا ہے مگر اس کو عادت بنا کر ہر وقت پان و گُٹکا چبانا ہر گر قبول نہیں کیا جانا چاہیے اور نا ہی ثقافت کے عنوان سے اسے فروغ دینا چاہیئے۔ اپنی ثقافت سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم احساس ذمہ داری سے کام لیں۔ شاعری ہماری ثقافت کا اہم جُز ہے اسے دل سے قریب رکھتے ہوئے مزید بامقصد بنائیں۔  

ماہر بشریات ای. بی. ٹائلر کے الفاظ میں، کہ کلچر  “وہ پیچیدہ مجموعہ ہے جس میں علم، عقیدہ، فن، اخلاقیات، قانون، رسم و رواج اور دیگر تمام صلاحیتیں اور عادات شامل ہیں جو انسان نے بطور ایک سماجی رکن حاصل کی ہیں۔

ثقافت سرگرمیوں اور نظریات کا ایک سلسلہ ہے جو انسانوں کو یہ بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو “معنی کی دنیا میں قدر و منزلت رکھنے والے فرد” کے طور پر دیکھ سکیں—اور محض وجود کے مادی پہلوؤں سے بلند ہو سکیں۔

مُہاجر اشتراکیت ہی اسکی  ثقافت کی انفردایت ہے۔ انڈیا کے مُختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی اولادوں نے سندھ کے شہروں میں ایک ساتھ ہوش سنبھالا ہے۔ کراچی و حیدرآباد و سکھر تین ایسے شہر ہیں جنکے الگ الگ مزاج بن چُکے ہیں۔ کراچی پہ یوپی و گُجرات کے مُہاجروں کی گہری چھاپ ہے جبکہ حیدرآباد پہ یوپی و رجستھان و ہریانہ کا امتزاج جبکہ سکھر  سندھی و مہاجر کا الگ مشترکہ ثقافتی گلدستہ۔  

ثقافت کو بشریات میں ایک مرکزی تصور سمجھا جاتا ہے، جو انسانی معاشروں میں سماج سیکھنے کے ذریعے منتقل ہونے والے مظاہر کی وسیع اقسام کو شامل کرتا ہے۔ ثقافتی اشتراکات تمام انسانی معاشروں میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں اظہار کے طریقے جیسے کہ فن، موسیقی، رقص، رسومات، مذہب، اور ٹیکنالوجیز جیسے اوزاروں کا استعمال، کھانا پکانا، رہائش اور لباس شامل ہیں۔

سنہ ۲۰۲۰ میں مُہاجر قوم کے چند جوانوں نے بیڑا اُٹھایا کہ وہ اپنی ثقافت کا بھر پور اظہار کریں گے۔ ۲۴ دسمبر ۲۰۲۰ پہلا کامیاب یوم مہاجر ثقافت تھا۔ اس سے قبل بھی کئی بار کوشش کی گئی تھی کہ یوم ثقافت منایا جائے مگر مقبولیت میں شدید ناکامی ہوئی تھی۔ مہاجر اتحاد تحریک سمیت کئی گروہ کوششیں کر چُکے تھے۔مُہاجر و کراچی کی نمائندگی کی دعویدار تمام تنظیموں و سیاسی پارٹیوں نے مُہاجر ثقافت کی شدید مُخالفت کی تھی۔ ایم کیوایم پاکستان، لندن، حقیقی  جیسی چھوٹی بڑی پارٹیوں نے تو کھل کر اس یوم ثقافت کی مذمت کی بلکہ نہایت چھوٹے گروپ جیسے گریٹر کراچی و فرزند زمین جنکا وجود آدھے درجن سے زیادہ افراد پہ نہیں اُنہوں نے بھی مُخالفت کرنے میں کسر نا چھوڑی۔ ایم کیوایم پاکستان نے یوم ثقافت کو نا صرف یہ کہ امن واک میں بدلنا چاہا بلکہ آرگنائزرز کو فوج کی مدد سے پکڑوانے کی دھمکیاں بھی دیں جبکہ الطاف حسین نے کلچر ڈے منانے والوں کو غدار قرار دیا۔  پی ایس پی جماعت اسلامی و دیگر جماعتوں نے خاموشی اختیار کی ۔ کووڈ کی پھیلی مگر کم ہوتی وبا کے اس زمانہ میں یوم مہاجر ثقافت تمام تر مُخالفتوں کے باوجود بھر پور طریقہ سے منایا گیا۔  

درج بالا ہم نے انسانی ارتقا اور مغربی فلسفیوں کی رائے سے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی کہ ثقافت نا تو جمود کا نام ہے نا زور و ذبردستی کا، ثقافت نا کسی علاقہ کی میراث ہے نا کوئی اس میں ہوتی تبدیلی کو روک سکتا ہے۔ دو ہزار سال قبل تک قائم سندھ کی ثقافت کے آثار راکھی گڑھ ہریانہ سے مہر گڑھ بلوجستان تک ایک ہی ہیں۔ ایسے ہی ہڑپہ و موہن جو ڈرو کی  ثقافت بھی وہی ہے جو راکھی گڑھ کی ہے اور یہ ہی صورت حال گُجرات میں ہونے والے آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ جو ثقافت ۲ ہزار سال قبل رائج تھی وہ اب غائب ہوچکی ۔ وقت کے دھارا نئے ثقافتی رُحجان جنم دیتا ہے۔صوبہ سندھ میں ثقافتی رحجان نا جانے کتنی بار بدلے ہیں مگر یہ طے ہے کہ یہ صوبہ کلہوڑا دور سے دو قومیتی صوبہ رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہندو و مسلمان ایک ہی زبان بولنے کے باوجود دو الگ الگ قومیں تھی۔ اس قومیتی تفریق کہ سب سے موثر و اہم دلیل سنہ ۱۹۴۳ میں سندھ اسمبلی میں جی ایم سیّد کے قیام پاکستان پہ مسلم قومیت کے دلائل ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جیسا کہ درج بالا عرض کیا گیا کہ  بہت بڑی تعداد میں تبادلہ آبای و زمین کا  منطقی نتیجہ منفرد ثقافت کا وجود میں آنا یقینی تھا۔ سندھ کے تنگ نظر نسل پرست کہتے ہیں کہ مُہاجر قوم نہیں ہوتی          

مُہاجر قوم نہیں ہوتی ؟

یہ سب سے احمقانہ  بات  ہے۔ قومیں سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی ٹکراؤ سے وجود میں آتی ہیں۔ صوبہ سندھ میں سندھی بولنے والوں کے ذہنوں میں سوچی سمجھی سازش کے تحت مُہاجر سے پہلے شدید نفرت بٹھائی گئی۔ سندھ کے نام نہاد دانشور سندھ کی بات ۵ ہزار سال سے شروع کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ دُنیا بیوقوف نہیں۔ ۵ ہزار سال پہلے کا اہلیان سندھ کو بنگالی و انگریز ماہرین آثار قدیمہ کی مدد سے اس وقت پتہ چلا جب ۱۹۲۰ میں پہلی بار موہن جو ڈرو دریافت ہوا۔ اس سے قبل سندھ کی تاریخ کا محور چچ نامہ تھا۔ جس ۵ ہزار سالہ ثقافت کی بات کی جاتی ہے وہ دراصل آج پورے پنجاب ہریانہ گُجرات خیبر پختونخواہ و بلوچستان کی مشترکہ ثقافت تھی۔ موجودہ سندھی زبان پرکریت سے نکلی ہے جو  ایک قدیم زبان ہے جو برصغیر میں عام لوگوں کی بولی کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ یہ زبان ویدک سنسکرت کے بعد کی عوامی بولیوں سے وجود میں آئی اور تقریباً  چھ سوقبل مسیح سے ہزار  عیسوی کے درمیان رائج رہی۔

پرکریت کی حیثیت عیسوی کے بعد کمزور ہونے لگی، کیونکہ مقامی زبانیں اور بولیاں جیسے کہ ہندی،سندھی پنجابی  اور دیگر علاقائی زبانیں ابھرنے لگیں۔ آخرکار، پرکریت اپنی اصل شکل میں ختم ہو گئی، لیکن اس کا اثر بعد کی زبانوں پر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ 

ارتقا کا   عمل جاری و ساری ہے۔ نا آج ۵ ہزار سالہ موہن جو ڈرو کی قوم وجود رکھتی نا ہی ہزار سالہ پُرانی پرکریت زبان۔ چند سو سال پہلے موجودہ سندھی زبان کا وجود ہوا تو  اسی طرح قیام پاکستان کے بعد  کوٹہ سسٹم، نفرت ، متروکہ سندھ پہ وڈیروں کے ناجائز قبضوں، لسانی بل، لسانی فسادات اور بھٹو کے دور میں مہاجر صنعت و تعلیمی داروں کو قومیانہ کا  عمل مہاجر  قومیت کی پیدائش کے اصل اسباب ہیں۔

دوستی بات اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ سندھی بن جائیں! 

   

آپ سندھی بن جائیں !

کیوں؟ اور کیسے ؟ بن جائیں سندھی!  پہلے تو آپ نے ظُلم کے سارے پہاڑ مُہاجر پہ توڑ دئیے کوئی کسر نا اُٹھا رکھی۔ مُہاجر کو ٹیکس دینے والا مظلوم ہاری بنا دیا اور ساتھ ساتھ یہ خباثت۔ یہ مطالبہ اگر کسی ترقی یافتہ مغربی ممالک میں ہو تو فوری ایسا مطالبہ کرنے والا جیل جائے اور پارٹی پہ پابندی لگ جائے۔ یہ ننگی نسل پرستی و نفرت ہے جسکا پرچار کھلم کھلا صوبہ سندھ میں کیا جاتا ہے۔

یہ مُطالبہ کرنے والے بتائیں گے کہ بلوچ و پشتون  کیا سب سندھی بن گئے ؟ اوّل تو یہ مطالبہ ہی حماقت جہالت و خباثت کا ننگا اظہار ہے مگر بات یہ ہے کہ آپ نے کیا کوشش کی کہ کوئی مُہاجر آپ کی اس خواہش پہ توجہ بھی دے ؟ آپ سندھ کی ذراعت پہ مطالبات کرتے ہیں، سندھ سے نکلنے والی گیس و کوئیلہ کے حقوق پہ بات کرتے ہیں آپ دریا سندھ کے پانی پہ بات کرتے ہیں وفاق میں سندھ صوبہ کے جائز حق کی بات کرتے ہیں مگر جب کراچی کی بات آئے تو آپ کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے ؟ کوٹہ سسٹم آپ پسند کرتے ہوئے سندھ کو ناہلیت کی دلدل میں پھنسا چُکے ہیں۔کراچی کا پانی کا نظام درہم برہم ہے نکاس کا نظام تباہ ہے سڑکیں برباد ہیں غلاضت کے انبار ہیں مگر آپ کی ہی ساری نوکر شاہی ہے اور آپ خاموش ہیں کراچی پہ بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ہے، کراچی کے تعلیمی اداروں کی فیس اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں سے کئی گُنا زیادہ ہے آپ خاموش ہیں ۔ آپ کی سیکڑوں چھوٹی و بڑی سیاسی و سماجی پارٹیوں میں مہاجر آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ کیوں ؟ کسیے بنائیں گے سندھی ؟  

سکھر اور دیگر اندرون سندھ کی مثال ہی لے لیجئے ! چلیں کراچی کی عوام آپکی زبان سے ناآشنا ہے مگر سکھر سمیت درجنوں اندرون سندھ کے شہر ہیں جہاں مُہاجر بھاری تعداد میں رہتا ہے مگر آپ کی ان پارٹیوں کا حصّہ نہیں ! کیوں ؟ وہ اور کیا کر ے ؟ اسکا رہن سہن و ثقافت و زبان سب آج جیسی ہی ہے  تو اس سے نفرت کیوں ؟ اسکو نوکر شاہی و سیاسی قیادت سے محروم کیوں کیا ہوا ہے ؟  

عید منانے آپ سب  گوٹھ  جاتے ہیں مگر سندھی  کلچر ڈے کراچی میں ؟ کیوں ؟ سندھی کلچر ڈے پہ مہاجر املاک  پہ حملے کیوں ؟  

کوئی سندھی ڈکیتی کرتے پکڑا جائے تو واویلہ اور کلچر ڈے کے دوران کراچی میں جگہ جگہ ڈکیتیاں ! کیا ایسے سندھی بنائیں گے ؟ 

اجرکھ ٹوپی صوفیت کی علامت یا نسل پرستی و نفرت کے نشان ؟ صوفیت نام ہے محبت کا پیار کا امن کا۔ مشترکہ مفادات کیلیے مل جل کر آگے بڑھنے کا۔ سندھ جسے صوفیت کی آماجگا سمجھا جاتا ہے لازمی ہے کہ صوفیت  پہ واپس آیا جائے۔نسل پرستی کا خاتمہ ہو۔ شاہ عنائت اللّہ شہید کے فلسفہ انسانیت کو اپنایا جائے۔ لعل شہباز قلندر شاہ لطیف و سچل سرمست کے پیغام پہ عمل کیا جائے تو مُہاجر و سندھی ساتھ ساتھ سندھ کی یکجہتی میں بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مُہاجر تبادلہ کی زمین کا وارث ہے۔ اور سندھ ہزاروں سال کی بدلتی تہذیبوں کا وارث۔ 

جن مُہاجر پارٹیوں نے ۲۰۲۰ میں یوم مہاجر ثقافت کی مذمت کی تھی ان میں سے بیشتر نے اگلے سالوں بھی یہ عمل جاری رکھا مگر چھوٹے گروہوں جیسے گریٹر کراچی، فرزندِ زمین پارٹی نے ۲۰۲۱ میں ہوم ثقافت بھرپور طریقہ سے منایا۔ تحریک انصاف و پیپلزپارٹی نے بھی ۲۰۲۳ میں اس یوم  ثقافت کو بڑھاوا دیا۔میری سندھ کے صوفی منش امن  و ترقی پسند سندھیوں سے گزارش ہے کہ نفرت کا خاتمہ کریں اور مُہاجر قومیت کا سندھ کا اٹوٹ حصّہ سمجھتے ہوئے مہاجر و سندھی مسائل ، گوٹھ و شہری معاملات سب پہ مشترکہ موقف قائم کرکے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔

ندیم رضوی

متروکہ سندھ تحریک

+1801 4625343    

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp