سندھ حکومت کی نسل پرستانہ ذہنیت اور اسکے نتیجہ میں بے پناہ دشواریوں کے باوجود مُہاجر قومیت کی تبادلہ کی ذمین متروکہ سندھ کے مرکز اور پاکستان کے اہم ترین شہر کراچی کا قومی معیشت میں حصہ بے مثال، پاکستان کے جی ڈی پی کا ۲۵ فیصد اور ملک کی آمدنی کا تقریباً ۵۰ فیصد ہے۔ یہ مالیاتی حصّہ جو کہ کراچی ادا کررہا ہے وہ دیگر دس بڑے شہروں مشترکہ حصّہ سے زیادہ ہے۔
اس سے بھی اہم یہ کہ کیا خود سے چلنے اور پورے پاکستان کو چلانے والا کراچی ہر ایک طویل عرصہ ظلم سہنے کے باوجود پاکستان کی معیشت کو کب تک سہارا دے سکتا ہے؟ ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم شہر کی لچک کو جانچنا کیا دانشمندی ہے؟ وفاقی اور سندھ حکومتیں کس وجہ سے اس خطرناک سٹّے پہ مکمل آمادہ نظر آتی ہیں۔ کیا یہ درست سمجھا جائے کہ کراچی کو نظر انداز کرنا کوئی بین الاقوامی سازش ہے ؟
بجٹ حکومت کی ترجیحات کے کلیدی اشارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ وفاقی اور سندھ دونوں حکومتوں کے ۲۰۲۴ میں اعلان کردہ بجٹ کراچی دُشمنی کے کھلے مظہر ہیں
سندھ حکومت، جسے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت وسائل کی تقسیم کے انتظامات کی بدولت نسبتاً اچھی مالی اعانت فراہم کی گئی ہے وہ کراچی کو اسکا حق دینے سے انکاری ہے۔ صوبائی دارالحکومت کراچی کے خلاف حکومت سندھ کا رویہ کسی طور پہ قابل قبول نہیں اور خطرناک حد تک مُہاجر دُشمنی پہ مبنی ہے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں ہیں، شہر کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بخوبی آگاہ ہیں، عالمی بینک نے “کراچی ڈائیگنوسٹک رپورٹ (KCD)” رپورٹ حکومت سندھ کی درخواست پہ ہی مرتب کرکے جاری کی ہے۔ This Karachi City Diagnostic (KCD) report, Transforming Karachi into a Livable and Competitive Megacity
اس رپورٹ کا پہلا حصہ کراچی کے مسائل کی تشخیص فراہم کرتا ہے، جو شہر کے انتظام کے کلیدی پہلوؤں پر مرکوز تین راستوں کے ارد گرد بنائے گئے ہیں
1. شہر کی ترقی اور خوشحالی، جس میں رپورٹ شہر کی معیشت، مسابقت اور کاروباری ماحول، اور غربت کے رجحانات کا تجزیہ کرتی ہے۔
2. شہر کی رہائش، جس میں رپورٹ شہر کی شہری منصوبہ بندی کا جائزہ لیتی ہے۔ سٹی مینجمنٹ، گورننس اور ادارہ جاتی صلاحیت، اور میونسپل سروس ڈیلیوری، تین شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے- (i) پبلک ٹرانسپورٹ، (ii) پانی اور صفائی، اور (iii) میونسپل ٹھوس فضلہ
3. شہر کی پائیداری اور جامعیت، جس میں رپورٹ شہر کے طویل مدتی خطرات اور لچک کا جائزہ لیتی ہے، (i) مالیاتی انتظام، (ii) ماحولیاتی پائیداری اور آفات اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے شہر کی صلاحیت، اور ( iii) سماجی شمولیت۔
ہر باب مسائل کی تیز رفتار تشخیص اور ممکنہ اقدامات کی فہرست فراہم کرتا ہے جو مختصر اور طویل مدت میں اٹھائے جا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس رپورٹ میں پیش کردہ سفارشات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے لیڈر جناب مُصطفی کمال بھی کئی بار کراچیکے ساتھ مستقل زیادتی پہ لب کُشائی کر تے ہیں سندھ حکومت کے کراچی سے سلوک پہ احتجاج کر چُکے ہیں۔ اب تک متحدہ پاکستان کے راہنما کا رویہ جارہانہ نہیں۔ وہ نہایت تحمل سے اور صوبہ سندھ کی ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے قانون کے دائرے میں کراچی کے مسائل کا حل غیر لسانی بُنیادوں پہ حل کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔حکومت سندھ مُہاجر دشمنی ترک کرکے فوری کراچی کا اسکا جائز حق دے۔
یونس ڈھاگہ، سابق بیوروکریٹ اور نگراں وزیر، فی الحال KCCI سے وابستہ پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل (PRAC) کے چیئرمین ہیں، نے کراچی پر غیر معمولی کام کیا ہے، یہاں توجہ دینے اور فنڈز کی ترقی کے لیے ایک مضبوط ثبوت پر مبنی کیس بنایا ہے۔ لنکڈ انک نامی پیشہ وروں کی سوشل میڈیا سائیٹ پہ انہوں نے لکھا کہ” ۲۰۲۴ تا ۲۰۲۵ کے سندھ کے ۳۰۰۰ ارب کے بجٹ کا کم از کم ۹۵ فیصد حصہ کراچی ڈالے گا (ایف بی آر ٹیکس وصولی، ایس بی آر ریونیو، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس وغیرہ)۔ لیکن کے ایم سی کو اس بجٹ کا صرف ڈیڑھ فیصد ملے گا۔ یہ شہر کب تک ایسے گھٹن میں رہے گا؟”
اس سلسلے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، “2024-25 کے بجٹ میں، کراچی سے ٹیکس محصولات میں 12.97 ٹریلین روپے کے ہدف کا 60 فیصد (7.78 ٹریلین روپے) حصہ ڈالنے کی توقع ہے۔ سندھ کو وفاقی منتقلی اور گرانٹس کی مد میں 1.98tr (اس کے بجٹ کا 75pc) ملے گا، مزید 13pc (Rs350bn) سروسز پر سیلز ٹیکس سے، زیادہ تر کراچی میں جمع کیا جائے گا۔
“یہ شہر انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (Rs170bn) اور دیگر ٹیکسوں سے بھی نمایاں آمدنی پیدا کرتا ہے۔ اس کے باوجود، سندھ کے بجٹ کا صرف 5 فیصد (160 ارب روپے) بلدیاتی اداروں کے لیے مختص کیا جاتا ہے، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو صرف 34 ارب روپے (1.1 فیصد) ملتے ہیں۔ اس کے برعکس، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کو منتقلی بالترتیب 17.7 فیصد اور 15 فیصد ہے۔
شہری علاقوں خصوصاً کراچی کو انفراسٹرکچر میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ سندھ کی آبادی کا 35-40 فیصد ہونے کے باوجود، کراچی کو 2023-24 میں سالانہ ترقیاتی منصوبے کا صرف 9 فیصد حصہ ملا اور 2024-25 میں 20 فیصد کے لیے بجٹ رکھا گیا ہے، جس سے 2017 میں عالمی بینک کی طرف سے نشاندہی کی گئی انفراسٹرکچر کے خسارے میں $10 بلین اضافہ ہوا ہے۔
کراچی، پاکستان کا سب سے امیر مگر تباہ و برباد اور سب سے بڑا مگر یتیم شہر ہے، دوسرے عالمی بڑے شہروں جیسے نیویارک، لندن اور ممبئی کی طرح سٹی اتھارٹیز، کے ایم سی، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور پاکستان ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو حق ہونا چاہئیے کہ وہ اپنے ساکنین سے ٹیکس وُصول کریں۔ اس ٹیکس کا کوئی تعلق صوبائی و وفاق ٹیکس سے نا ہو اور جو ٹیکس یہ حاصل کریں اسکا کریڈٹ صوبائی و وفاقی حکومتیں صارفین کو واپس کریں۔
کراچی کے نمایاں معاشی کردار کے باوجود معاشی طور پہ بدحال اور قریب المرگ مملکت پاکستان کے وفاق کی مستقل مُجرمانہ کوتاہی کا کیا جواز ہے؟ کیا اس بے اعتنائی کا مقصد پاکستان کو توڑ کر سندھودیش کا قیام ہے یا کہ صوبائی خود مُختاری کے نام پہ شہری غلامی کہ جہاں اندرون سندھ کا وڈیرہ حکمران اور شہری غیر سندھی عوام ٹیکس دینے والے ہاری ہوں ؟ اگر ایسا نہیں تو کراچی کو سونے کے انڈے دینے والی مُرغی سمجھنا بند کیا جائے۔ خاص طور پہ صوبائی حکومت تو اس مرغی کے انڈے کھانے کے ساتھ ساتھ اسکا گوشت بھی کچّا چبا جانا چاہتی ہے۔ یہ سلسلہ ذلالت بند ہونا چاہیے۔
درجہ بالا مضمون ڈان نیوز ۸ جولائی افشاں صبوحی کے نیوز آرٹیکل سے ماخوذ ہے۔
1 thought on “کراچی کا سندھ کے بجٹ میں95% حصّہ جبکہ صوبائی حکومت کی کراچی کو 1.5% کی بھیک”
بہترین لکھا ہے اسی طرح ہم مزید شعور کو بیدار کرتے رہینگے ان شاءاللہ
Comments are closed.