اسلام علیکم!
انشااللّہ بتاریخ ۲۴ دسمبر ہر مُخلص مُہاجر بھرپور انداز سے اپنی قومیت کا اظہار اپنی زمین متروکہ سندھ پہ اپنی ثقافت و زبان کے ذریعہ کریگا ۔ یہ خوشیوں کا دن ہے کہ تمام تر جبر و پابندیوں ناانصافیوں ماضی کی گئی ہشتگردیوں فساد و استبداد کے باوجود نئی نسل نے اپنی قومیت کی ثقافت کا دن منانے کا فیصلہ کیا۔ اس دن کا منایا جانا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ انڈیا کے اقلیتی مسلم آبادی نے پاکستان کے حق میں ننّاوے فیصد ووٹ ڈال کر اکھنڈ بھارت و بھارت ماتا کی بکواس کرنے والوں کو واضح پیغام دیا کہ وہ تاقیامت انڈیا میں بہ حیثیت اقلیت ظُلم سہنے کو تیارتو ہو سکتے ہیں مگر مسلم اکثریتی ہندوستان میں اپنے بھائیوں کیلئے مسلم قومیت کی ریاست لازمی بنائیں گے۔گو کہ سائیں جی ایم سیّد کی قرارداد کے مطابق پاکستان سارے انڈیا کے اس زمانہ کے دس کروڑ مسلمانوں کیلئے بننا تھا مگر محض چند لاکھ ہی ہجرت کرسکے۔ انڈیا کے بے غرض و بے لوث اقلیتی مسلمان آج بھی اس جزبہ یکجہتی اُمت مسلمہ کی سزا بھگت رہے ہیں۔جبکہ پاکستان ہجرت کرنے والے مُہاجروں کو آتے ہی بدترین عصبیت و ظُلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نا ایک قرارداد سے بناتھا نا ایک الیکشن سے بلکہ یہ طویل جدوجہد تھی۔ سیرسیّد کی عظیم علمی و فکری تحریک جس کے تحت جناب جسٹس سید امیر علی نے ممڈن نیشنل ایسوسیشن کے زیر اہتمام سارے انڈیا بشمول سندھ میں حسن آفندی صاحب کی اعانت کرکے ماڈرن تعلیم کے مراکز مدرسہ الاسلام کی بنیاد رکھی۔ حق و سچ یہ ہے کہ آج اس عظیم ملک پاکستان میں ہر تعلیم یافتہ شخص پہ لازم ہے کہ وہ سر سیّد و جسٹس امیر علی کا احسان مند ہو۔
ان حالات و واقعات کی تفصیل میں جائے بغیر کہ جنکی وجہ سے نا صرف یہ کہ پاکستان میں اب تک ایک قوم کاتصور مضبوط نا ہوسکا بلکہ کچھ نادانیوں اور موں شگافیوں کے باعث بنگال بنگلادیش بن گیا، کوئی پاکستان نا کھپے کہتا ہے تو کوئی پروردگار کی بنائی اس زمین کو ہی اپنی ماں کہنے میں مصروف کار ہے۔ پاکستان بھارت ماتا کا سینہ چیر کر بنایا گیا تھا۔ آج ہماری افواج اتنی مضبوط ہیں اس مُلک میں کسی ماتا دیوی کی پرستش کی کوئی گُنجائیش نہیں۔ کراچی و سندھ سمیت تمام شہر و صوبے سب پاکستانیوں کیلئے ہیں۔ جو شخص بھی وحدت پاکستان کی سالمیئت کا قائل ہو، جو ہر قومیت کو پھولوں کی طرح سمجھتا و پسند کرتا ہو اس پہ لازم ہے کہ پاکستان کو تمام قومیتوں کا گلدستہ سمجھے۔ نا کوئی اس گلدستہ پاکستان سے کسی پھول کو خارج کرسکتا نا ہی اس پھول کی موجودگی اور اس کی مہک سے انکار کرسکتا اور نا ہی مُہاجر کو کسی اور قومیت میں ضم کرنے کی نسل پرستانہ و نازی صفت جسارت کرسکتا ہے۔ مُہاجر بھی پاکستان کی ایسی ہی قومیت ہے جیسے کوئی اور۔ آج کے کسی بھی جوان تو دور بیشتر مُہاجر قومیت کے رُکن کسی بزرگوں نے بھی ہجرت نہیں کی مگر اپنا انداز رہن سہن، لباس، کھانا پینا انداز گفتگو زبان و طور طریقہ الگ رکھنے اور صوبہ سندھ میں بدترین عصبیت کا سامنا کرنے کے باعث مُہاجر قومیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کی وحدت کی خُصوصیت یہ ہے کہ مذہبی طور پہ پاکستان موحد یعنی مسلمانوں کا مُلک ہے جہاں اقلیتوں کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اگر ایک طرف ہمارے اتحاد کی علامت پیغام الہی قران مجید و فرقان حمید ، نبیِ اخر الزمان سرور کائینات کی ذات کرامی ہے تو دوسرے جانب ہم سب اسی وادی مہران و انڈس کے وارث ہیں جو کشمیر سے کراچی کوئٹہ سے سیالکوت اور پشاور سے ٹھٹہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ وادی سندھ صوبہ سندھ سے بہت زیادہ طویل و عریض ہے اور سارا پاکستان اس سندھ کا وارث ہے جسکا نام تب پڑا کہ جب آریا نے اٹک کے مقام پہ زور و شور سے بہتے دریا کو تین ہزار سال قبل سنسکرت کی بھاشا میں ”سندھو“ یعنی بہتا ہوا پانی کہا۔ آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ آریا سے پہلے جو تہذیب یہاں تھی وہ دراوڑ قوم کی تھی جس کے ثبوت صوبہ سندھ میں موہن جو ڈرو سے ہڑپہ پنجاب، راکھی گڑھ ہریانہ، مہر گڑھ بلوچستان اور لوتھل گُجرات تک ایک یکتا ثقافت کا پتہ دیتے ہیں۔ ایک ایسی ثقافت کہ جسکی وارث مُہاجر سمیت آج پاکستان کی ہر قومیت ہے
پانچ ہزار سالہ وادی سندھ کی مشترکہ ثقافت میں کنجوسی کرنا یا سے کسی ایک گروہ تک محدود کردنیا مناسب نہیں
بہ حیثیت مُہاجر ہم شکر گزار ہیں سندھ کے ان عظیم سرداروں اور میزبانوں کے جنہوں نے بوقت ہجرت مہاجروں کی آمد پہ دسترخوان لگائے گھر و محلہ تعمیر کئے جن میں پیر الہی بخش، نواب کمبوہ والد جناب جام ساقی، پیر علی راشدی، پیر پگارا، علی احمد تالپور، عبداللہ ہارون، غلام محمد خان بھرگڑی اور دیگر شامل ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ مُہاجر اپنے ساتھ ایک بڑی دولت بھی لائے حبیب گروپ، راجہ صاحب محمود آباد، نواب جونا گڑھ، خان لیاقت علی خان جیسے چند ناموں کے علاوہ بے پناہ ایسے خاندان تھے جنہوں نے اپنی مدد آپ سے مہاجروں کو بسایا اور نوزائدہ ریاست میں معاشی استحکام کا باعث بنے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ۷۵ سال گزر جانے کے بعد بھی مُہاجر ٹیکسوں کا بھاری ترین بوجھ اُٹھانے والی، کوٹہ سسٹم سے روز ملازمتوں اور تعلیم میں کٹنے والی مظلوم قومیت ہے ، سندھ سے کشمیر و گلگت تک جب بھی ضرورت پڑے تو امدادی سرگرمیاں کرنےوالی مُہاجر قوم کے خلاف ناعاقبت اندیش نفرت انگیز باتیں کرتے ہیں۔ اگر قیام پاکستان پہ کسی نے دسترخوان لگایا تھا تو اسکا بہت شکریہ مگر پچتھر سال میں مُہاجر نے وہ احسان کئی گنا سود کے ساتھ واپس کردیا ہے۔ ہر سیلاب میں مہاجر ہی ہے جو بڑھ کر سب کی امداد کرتا ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس مُہاجروں کا شہر کراچی دیتا ہے اور جواب میں صرف نفرت وصول کرتا ہے یا اس پہ کوٹہ سسٹم ایسا لگتا ہے کہ آج اترا نہیں۔ کوئی احمق یہ کہتا ہے کہ اس نے مُہاجر کو زمین دی تو کہنے سے پہلے ثبوت تو لاؤ۔ سچ یہ ہے کہ مُہاجر سب کچھ چھوڑ کر اگر آیا تھا تو غیر مسلم پاکستان بھر میں سب کچھ چھوڑ کر بھی گیا۔ ہندو نہرو معاہدے کے تحت ان دونوں گروہوں کا آپس میں چھوڑی یا ترک کی ہوئی زمین مکان و دکان و فیکڑی کا آپس میں تبادلہ ہوا تھا۔ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ مُہاجر کو کسی اور صوبہ میں کوئی طعنہ نہیں دیتا احسان کرنے کا زمین دینے کا مگر افسوس سندھ میں کچھ مُلک دشمن عناصر نفرت پھیلاتے ہیں۔ اس نفرت کا جواب صرف یہ ہے کہ جو زمین قیام پاکستان پہ غیر مسلم نے چھوڑی اسکے ہر انچ کا آئنی و قانونی وارث صرف اور صرف مُہاجر قومیت ہے ۔
نا پانچ پانی اب پنجاب میں ہیں نا ہزارہ کے نفوس ہزار ہیں اور نا سندھی پانی میں بہتے ہیں۔ ایسے ہی مُہاجر قوم کی نئی نسلیں ہجرت سے شرفیاب تو نہیں مگر قومیتی اعتبار سے ہمیشہ مُہاجر رہیں گی۔ ہر قوم کا آغاز کسی نا کسی واقعہ سے ہوتا ہے۔ اگر سندھی نام بہتے پانی سے پڑا، پنجابی پانچ دریاؤں سے ہزارہ ہزار نفوس سے امریکہ اجنبی زمین دریافت کرنے والے امریگو سے کینیڈا ویرانے میں گاؤں دیکھ لینے سے ایسے ہی مُہاجر قومیت کا نام بزرگوں کی ہجرت سے پڑا۔ اب نا یہ کسی کتاب میں لکھا کہ قوم کتنے عرصہ میں تشکیل پاتی ہیں اور نا ہی مُہاجر روایتی نقل مکانی یا پناہ لینے والے تھے۔ نظریاتی بُنیادوں پہ ایک نئے ملک کی جدوجہد کرکے نیا جمہوری ملک بنا کر آئے تھے۔ اگر انڈیا کے مسلمانوں کو پہلے ہی سندھ کے اکابرین بتاتے کہ ہم پاکستان نہیں سندھودیش بنانا چاہتے ہیں تو شائد تاریخ کُچھ اور ہوتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انڈیا کے ہر مسلمان کو پاکستان میں نقل مکانی یا ہجرت کا موقع دیا جاتا کیوں کہ سندھ اسمبلی میں دعوی ہی یہی کیا گیا تھا۔ مگر قیام پاکستان سے ہی اسلامی لبادہ اُتار کر سندھی قومیت کا چغہ پہن لینے والوں کو مہاجر قوم پہ سندھی بننے کے دباؤ دھونس و دھمکی سے اب باز آجانا چاہیے۔ تین نسلوں کو کوٹہ سسٹم سے تباہ کرنے کا تعصب اب ختم ہونا چاہئیے۔ مہاجر بانی پاکستان ہے۔ سندھ و پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔ مُہاجر قوم کو اسکے جینے کا حق دینا ہوگا۔ متروکہ سندھ پہ اسکا حق تسلیم کرنا ہوگا۔ جئیے مُہاجر
ندیم رضوی
متروکہ سندھ تحریک